یہ کہانی ایک چھوٹے سے گاؤں “راس نگر” کے گرد گھومتی ہے، جہاں لوگ نیک اور بھلے مانس تھے۔ ان میں احمد علی، ایک غریب لیکن دیانتدار کسان، اپنی محنت کے ذریعے زندگی گزارتا تھا۔ احمد کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنی بیٹی نوری کو اعلیٰ تعلیم دلائے، لیکن گاؤں کے ظالم چودھری کی حکمرانی اور اپنی غربت کے باعث وہ مشکلات کا سامنا کر رہا تھا۔
یہ زمانہ قدیم کی بات ہے ایک گاؤں کا نام راس نگر تھا۔وہاں کے لوگ بہت نیک اور اچھے تھے۔اس گاؤں میں ایک شخص احمد علی رہتا تھا جو تھا تو بہت ہی غریب لیکن نیک انسان تھا،پیشے کے لحاظ سے وہ ایک کسان تھا اور گاؤں کے چودھری کی زمین پر کام کرکے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالتا تھا۔چودھری بہت ہی ظالم اور مغرور تھا۔
غریب کسان کی کہانی اردو میں
وہ دوسروں سے بُرا سلوک رکھتا اور لوگوں کی دل آزاری کرتا۔احمد کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام ”’نوری“ تھا وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی،احمد علی کی خواہش تھی کہ اس کی بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔
ایک دفعہ وہاں ایک فقیر آیا اور چودھری کے گھر کو دیکھ کر رُک گیا اور نوکر سے پانی مانگا۔اسی اثناء میں چودھری نے فقیر کی آواز سنی تو وہ غصے سے بولا۔ دفع ہو جاؤ اور اس کی بہت بے عزتی کی۔فقیر بہت ہی پیاسا تھا،چودھری کا رویہ دیکھ کر وہ رو پڑا اور آگے چل پڑا۔قریب ہی کھیتوں میں احمد کام کر رہا تھا۔فقیر پیاس سے نڈھال تھا کہ چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔احمد فقیر کی یہ حالت دیکھ کر دوڑتا ہوا فقیر کے پاس آیا اور قریب ہی درخت کی چھاؤں تلے بیٹھایا۔جلدی سے اپنا کھانا اور پانی لے کر آیا اور فقیر کو پیش کر دیا۔
فقیر پانی پی کر کچھ بہتر ہو گیا۔اس نے تھوڑا سا کھانا بھی تناول کیا اور خوش ہو کر احمد کو دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ہر خوشی پوری کرے۔کچھ دنوں بعد ایک دن وہ کھیتوں میں کام کر رہا تھا کہ اس کو ایک چابی ملی،اس نے چابی اپنی جیب میں ڈال لی جب وہ فارغ ہو کر گھر آیا تو اس نے وہ چابی اپنی بیوی کو دکھائی وہ دیکھنے میں کافی پرانی چابی تھی۔
اس نے وہ چابی تکیے کے پاس رکھی اور سو گیا،رات کو اس نے خواب میں دیکھا کہ کھیت کے قریب ایک درخت ہے جس کے تنے کے نیچے ایک صندوق ہے جس کی یہ چابی ہے۔صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ سب کچھ بھول چکا تھا،اس نے چابی جیب میں ڈالی اور نوری کو سکول چھوڑنے چلا گیا،اس کے بعد وہ کھیتوں میں چلا گیا جب وہ تھک گیا تو وہ سانس لینے کیلئے اسی تنے پر آ بیٹھا جس پر اس نے فقیر کو بیٹھایا تھا اس کو سارا خواب یاد آ گیا،اس نے جلدی سے زمین کھودی تو وہاں صندوق موجود تھا۔
وہ صندوق لے کر گھر آیا۔اس نے جلدی سے چابی نکالی اور صندوق کو کھولا۔جیسے ہی صندوق کھلا سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔سب حیران تھے اور کیوں نہ ہوتے۔
صندوق قدیم زیورات اور سونے کے سکوں سے بھرا ہوا تھا۔احمد کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔وہ جلدی سے اُٹھا اور کچھ اشرفیاں اس نے رکھ کر باقی سارے گاؤں میں تقسیم کر دیں،احمد علی خوش تھا کہ اس کی نیکی کام آئی اور اب ان پیسوں کے ذریعے نوری کو تعلیم دلانے کی اس کی دیرینہ خواہش پوری ہو جائے گی۔
بات گاؤں کے چودھری تک جا پہنچی اور چودھری نے جب احمد کی زبانی یہ سارا ماجرا سنا تو اس نے اُسی دن اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ کی اور اسی دن سے لوگوں کے کام آنے کا وعدہ کیا۔
احمد علی کی نیکی اور خدمت کے بدلے میں قسمت نے اسے ایک ایسا خزانہ عطا کیا جس سے اس کی تمام مشکلات دور ہوگئیں۔ اس نے نہ صرف اپنی بیٹی کی تعلیم کا خواب پورا کیا بلکہ گاؤں کے دوسرے لوگوں کی مدد کرکے ان کا دل جیت لیا۔ اس کے عمل نے چودھری کو بھی اپنی غلطیوں کا احساس دلایا، اور اس نے اپنی اصلاح کی۔ یہ کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی اور خدمتِ خلق انسان کو حقیقی کامیابی سے نوازتی ہے۔