انتقام کی راہ معافی اور ترقی کے ذریعے خوشی پائیں
انتقام کی راہ بنیادی طور پر بدلہ لینے کے عمل کو ظاہر کرتی ہے، جو اکثر ناانصافی، دھوکہ دہی، یا ذاتی نقصان کے احساس کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ تصور انسانی فطرت میں گہری جڑیں رکھتا ہے اور مختلف ثقافتوں، فلسفوں، اور قانونی نظاموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

انتقام کی راہ: کیا بدلہ لینا واقعی ضروری ہے
انتقام ایک طاقتور جذبہ ہے جو تاریخ، ادب اور ذاتی تجربات کو متاثر کرتا آیا ہے۔ انتقام کی راہ (The Road to Revenge) انفرادی طور پر انصاف کی جستجو کی علامت ہے، جو عام طور پر شدید جذبات اور گزری ہوئی ناانصافیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ لیکن کیا انتقام واقعی سکون فراہم کرتا ہے یا یہ صرف دکھ اور تکلیف کے نہ ختم ہونے والے دائرے کی طرف لے جاتا ہے؟ اس مضمون میں، ہم انتقام کی نفسیات، انسانی رویے پر اس کے اثرات، اور اس کے متبادل طریقوں پر روشنی ڈالیں گے۔
انتقام کی راہ کیا ہے
دروازے پر ہوتی مسلسل دستک کی آواز سن کر راحم نے آنکھیں کھولیں۔ اس نے تھوڑا سا اوپر ہو کر تکیے کے سہارے ٹیک لگا کر سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر دیکھا۔ صبح کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔
کون ہے ؟ راحم نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ چھوٹے صاحب ! آپ کو نیچے بڑے صاحب بلا رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ آ کر ناشتہ کر لیں۔ ملازم کرم دین نے کچھ اونچی آواز میں پیغام پہنچایا۔ او کے ! ان سے کہو میں آرہا ہوں ۔ راحم نے اٹھتے ہوئے کہا۔ پندرہ منٹ بعد وہ ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھا۔ اس کی ممی شہر بانو گہری سوچ میں غرق کافی کا کپ تھامے بیٹھی تھیں۔ کیا بات ہے شہر بانو ! کیا سوچ رہی ہو ؟
شہر بانو نے کافی کا مگ ٹیبل پر رکھا اور راحم کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں ۔ آپ کو پتا ہے راحم شادی کرنا چاہتا ہے ۔ ہاں ! وہ مجھے بتا چکا ہے۔ تمہیں کوئی اعتراض ہے ؟ راحم کے ڈیڈ شاہنواز نے پوچھا۔ دم اعتراض تو نہیں مگر میرے خیال میں شادی اپنے اسٹینڈرڈ کے لوگوں میں کرنی چاہئے۔ میں نے یہ بات اسے سمجھانے کی کوشش کی ہے، مگر اس کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ اس سے پہلے کہ شاہنواز کچھ کہتے ، راحم بول اٹھا۔ ڈیڈ ! اگر میں نے اپنے لئے مڈل کلاس کی لڑکی کو پسند کیا ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔ محی ! نائمہ کو میری کلاس فیلو ہونے کے ناتے اچھی طرح جانتی ہیں، انہیں وہ پسند بھی ہے۔
اعتراض انہیں اس بات پر ہے کہ وہ لوگ ہمارے اسٹیٹس کے نہیں ہیں۔ شاہنواز رئیسانی نے بیٹے کی بات سننے کے بعد شہر بانو سے کہا۔ شہر بانو ! ہمیں بیٹے کی خوشی میں خوش ہونا چاہئے۔
مذہب بھی پسند کی شادی کا اختیار دیتا ہے۔ راحم بیٹا ! تمہاری شادی نائمہ سے ہو گی۔ فی الحال تم اسلام آباد جانے کی تیاری کرو، اگلے ہفتے تمہیں وہاں میٹنگ میں موجود ہونا ہے۔ او کے ڈیڈ ! راحم مگ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ آپ نے اس لڑکی کو دیکھا ہے جسے راحم نے پسند کیا ہے ؟ شہر بانو نے راحم کے جانے کے بعد پوچھا۔ ملا تو نہیں ہوں۔ راحم نے اس کی تصویر دکھائی تھی، پیاری ہے۔ میری بھیجی اصفا سے بھی زیادہ…؟ شہر بانو ! تم اچھی طرح جانتی ہو کہ اصفا بے حد حسین ہے۔ وہ لڑکی اس جیسی حسین نہیں مگر ہمارے بیٹے کو پسند ہے، اس ناتے ہمیں اسے خوشی سے قبول کر لینا چاہئے۔ شوہر کی بات سن کر شہر بانو نے تائید میں سر ہلا دیا۔
راحم اپنے دوست عمیر کے ساتھ اس کے گھر پر موجود تھا۔ کیا بات ہے راحم ! تم کچھ پریشان سے لگ رہے ہو ؟ کوئی خاص بات نہیں۔ میں نے ممی اور ڈیڈ کو اپنی پسند سے آگاہ کر دیا ہے۔ انہیں بتادیا ہے کہ میں نائمہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ممی، نائمہ کو بہو کی صورت میں قبول کرنے کے لئے دل سے راضی نہیں ہیں۔
ان کے خیال میں شادی اپنے برابر کے لوگوں میں کرنی چاہئے۔ میری خوشی کی خاطر وہ راضی تو ہو گئی ہیں، مگر میں جانتا ہوں ان کا دل اصفا کی طرف مائل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ میں اصفا سے شادی کر کے بہت اوپر جا سکتا ہوں۔ تم ڈبل مائنڈڈ کیوں ہو رہے ہو ؟ نائمہ سے تمہاری اچھی انڈراسٹینڈنگ ہے۔
میرے خیال میں تم نے درست فیصلہ کیا ہے۔ یہ بتائو تم اسٹڈی کیلئے کب باہر جا رہے ہو ؟ فی الحال تو میں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا ہے ۔ ڈیڈ کی خواہش تھی کہ میں بزنس میں ان کا ہاتھ بٹائوں۔ میں نے ان کی خواہش پر آفس میں بیٹھنا شروع کر دیا ہے۔ بہت خوش نصیب ہو تم ! اچھے کامیاب بزنس مین کے بیٹے ہو ، تمہارے ڈیڈ نے بڑی جدوجہد سے اپنا مقام بنایا ہے۔ تمہاری بات اپنی جگہ درست ہے مگر عمیر ! مجھے کبھی کبھی اندر سے بہت اکیلے پن کا احساس ہوتا ہے ۔
ممی پھر بھی مجھے وقت دیتی ہیں، مگر ڈیڈ کے ہوتے ہوئے بھی مجھے یوں لگتا ہے کہ میں ان کے پیار سے محروم ہوں۔ راحم کی بات سن کر عمیر فوراً بولا۔ میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ تمہارے ڈیڈ کی مصروفیت ہے۔ تمہاری شکایت دور ہو جائے گی، اب تو آفس میں تم ان کے ساتھ ہی ہوتے ہو۔
لو سوپ پیو، ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ عمیر کے کہنے پر راحم نے پیالہ اٹھایا اور سوپ اپنے حلق میں اتار نے لگا۔ کل صبح کی فلائٹ سے اسے اسلام آباد جانا تھا۔ اگلے دن وہ بزنس میٹنگ کے سلسلے میں اسلام آباد میں موجود تھا۔ رات نو بجے وہ وہاں کے ایک ریسٹورنٹ میں ڈنر کر رہا تھا۔ اس کی نظر کائونٹر پر بیٹھے ایک شخص پر پڑی۔ دونوں کی نظریں ملیں۔
راحم اسے دیکھتارہ گیا۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ اٹھا اور کائونٹر پر موجود شخص کے پاس پہنچ گیا۔ مجھے راحم کہتے ہیں۔ اس نے اپنا تعارف کرایا۔ تم کیا دوسرے شہر سے آئے ہو ؟ اس شخص نے پوچھا۔ جی ! میں آپ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ آپ بالکل میرے ہم شکل ہیں۔ میرے والد کی شکل مجھ سے نہیں ملتی جبکہ آپ کو دیکھ کر یوں لگ رہا ہے کہ آج سے تیس برس بعد میں آپ جیسا ہوں گا۔ آپ کا نام کیا ہے ؟ مجھے یاسر فاروق کہتے ہیں۔
شام میں یہاں اکائونٹ کا کام کرتا ہوں، دن میں ایک اسٹیٹ ایجنسی میں ہوتا ہوں ۔ یاسر فاروق بڑے غور سے راحم کو دیکھ رہا تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ میں آپ سے دوستی کا خواہشمند ہوں تو آپ کا کیا جواب ہو گا ؟ دراصل مجھے بڑی عمر کے لوگ اٹریکٹ کرتے ہیں۔ راحم کی پیشکش سن کر یا سر فاروق کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ مجھے تمہاری دوستی پر کوئی اعتراض نہیں۔ تم جاتے ہوئے اپنا فون نمبر دے جانا، ہم کل صبح میں ملتے ہیں۔ او کے … راحم واپس اپنی ٹیبل پر جا کر بیٹھ گیا۔
کھانے سے فارغ ہو کر اس نے بل ادا کیا اور جاتے ہوئے یا سر فاروق کو اپنا موبائل نمبر دے دیا۔ اگلے دن صبح وہ ناشتہ کرنے میں مصروف تھا کہ یا سر فاروق کی کال آگئی۔ میں ناشتے سے فارغ ہو کر آپ کی طرف آتا ہوں۔ راحم نے موبائل آف کرتے ہوئے کہا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ یاسر فاروق سے ملنے اس ریسٹورنٹ میں موجود تھا جہاں کل رات اس نے ڈنر کیا تھا۔
دو تمہیں دیکھ کر اپنے پن کا احساس ہوتا ہے ۔ راحم ! تم کہاں کے رہائشی ہو ؟ یاسر فاروق نے رسمی گفتگو کے بعد پوچھا۔ تعلیم بیٹار احم ! تمہیں دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ تم اتنے دولت مند ہو۔ انکساری اور خلوص تم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ میری پیدائش چکوال کی ہے ، میٹرک کرنے کے بعد میں یہاں آگیا تھا۔ انٹر تک پرائیویٹ تعلیم حاصل کی۔
میرے حالات کبھی بہتر نہیں رہے، ہمیشہ فکر معاش میں مبتلا رہا۔ پہلے میری بیوی فریدہ بھی نوکری کرتی تھی ، وہ پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی تھی۔ میری ماں کو فالج کا عارضہ ہوا تو فریدہ نے نوکری چھوڑ دی۔ میری ماں کی مسلسل دیکھ بھال کے لئے اس کا گھر پر رہنا ضروری ہو گیا تھا۔ جوانی میں ، میں اپنی تعلیم جاری رکھتا اور بہتر مستقبل کی جد وجہد کرتا تو آج میرا مستقبل یوں غیر محفوظ نہ ہوتا۔ اللہ نے اگر مجھے بیٹادیا ہوتا تو وہ آج میرا سہارا ہوتا۔ یا سر فاروق میری پیدائش اسی شہر کی ہے۔
مجھے اسلام آباد بہت پسند ہے۔ میرے والد بہت بڑے بزنس مین ہیں۔ ممی پچھلے دس سالوں سے سوشل ورک کر رہی ہیں۔ آپ بھی تو اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔ ریسٹورنٹ میں آنے والے لوگوں سے عام طور سے دوستی نہیں کرتا تھا۔ یہ راحم کی شخصیت کا اثر تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اپنی زندگی کا ہر ورق اس کے سامنے الٹ دے۔
دو تم یہاں کتنے دن قیام کرو گے ؟ یا سر فاروق نے پوچھا۔ دو مجھے یہاں تین دن اور قیام کرنا ہے۔ راحم یہ کہہ کر یا سر فاروق کو اپنے بزنس کے متعلق بتانے لگا۔ ایک گھنٹے بعد وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہو۔ یاسر فاروق نے راحم کے اصرار کے باوجود کافی کابل خود ادا کیا۔ ویٹر نے رقم اٹھاتے ہوئے یا سر فاروق کی طرف دیکھ کر کہا۔
یہ لڑکا شکل وصورت کے اعتبار سے آپ کا بیٹا لگتا ہے۔ ویٹر کا تبصرہ سن کر ایک لمحے میں یاسر فاروق پچیس سال پیچھے چلا گیا، جب اس کے گھر میں تیسری اولاد کی پیدائش ہونے والی تھی۔ پھر یا سر فاروق کی خواہش کے مطابق بیٹا پیدا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب ! کیا میں اپنے بیٹے کو دیکھ سکتا ہوں ؟ یا سر فاروق نے خوشی سے سرشار لہجے میں ڈاکٹر سے پوچھا۔ دو نہیں ! ابھی آپ اس سے نہیں مل سکتے۔ بچے کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے ، اسے سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
ہم پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن آپ ہر بات کے لئے تیار رہیں۔ ہم ابھی آپ کی مسز کو کچھ نہیں بتائیں گے۔ ڈاکٹر اتنا بتا کر آپریشن تھیٹر میں چلی گئی۔ پھر وہ لڑکا جس کا نام ان دونوں میاں، بیوی نے شاہ زیب طے کیا تھا، کچھ دیر بعد موت کے منہ میں چلا گیا۔ یاسر فاروق نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور اپنی پوری توجہ اپنی دونوں بیٹیوں پر مرکوز کر دی۔
اپنے بیٹے کی موت کے غم سے دونوں میاں ، بیوی ابھی نہیں سنبھلے تھے کہ بیٹے کی ولادت کے ایک سال بعد ان کی بڑی بیٹی جو پیدائشی طور پر دل کی بیماری میں مبتلا تھی، اس کی موت واقع ہو گئی۔ ایک کے بعد دوسرے صدمے نے یا سر فاروق کو نڈھال کر دیا تھا۔
اس نے اپنی پوری توجہ کا مر کز اب اپنی پانچ سالہ بیٹی ماریہ کو بنا لیا تھا۔ راحم کو رخصت کر کے وہ موٹر سائیکل پر گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اس کا دماغ الجھا ہوا تھا۔ راحم کے ہننے کا انداز ، آنکھیں، کشادہ پیشانی حتی کہ دانت بالکل اس کی طرح کے تھے۔ راحم کے دانتوں کی نچلی قطار میں درمیان کے دانت ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے تھے۔
یہ دہرے دانت یا سر فاروق کے خاندان کی شناخت تھے۔ اس کے خاندان میں کسی فرد کے دانت ایسے ضرور ہوتے تھے۔ وہ راحم کو دیکھ کر شک میں مبتلا ہو گیا تھا۔ کیا ڈا کٹر سنجیدہ نے بچے کے بارے میں غلط بیانی کی تھی؟ اس نے اس کے بیٹے کی موت کی اطلاع دے کر کسی اور کے بچے کی لاش اس کے حوالے کر کے اس کا بیٹا کروڑ پتی بزنس مین کے حوالے کر دیا تھا؟ یہ حقیقت تھی یا جھوٹ ! اس کا پتا چلا نا اب اس کا کام تھا۔ آئے دن اخبارات میں اسپتال سے بچوں کی گمشدگی کی خبریں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ ان کاموں میں اسپتال کا عملہ ملوث ہوتا تھا۔
عین ممکن تھا کہ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو اور اس کا بیٹا کسی اور کے حوالے کر دیا ہو۔ دولت سے بہت کچھ خریدا جا سکتا ہے۔ گر یہ سچ ہے تو میرے ساتھ یہ دھوکا کیوں ہوا؟ یا سر فاروق نے اونچی آواز میں خود کلامی کی۔ اس وقت وہ اپنے گھر کے باہر موٹر سائیکل پر بیٹھا سوچ رہا تھا۔ اس وقت فریدہ نے گیٹ کھول کر جھانکا۔ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو ؟ گھر میں آنے کا ارادہ نہیں ہے کیا …؟ آرہا ہوں۔ مجھے سکون تو لینے دو۔ وہ موٹر سائیکل کو لاک کر کے گھر میں داخل ہوا۔ وہ فریدہ کے سامنے اپنے خدشوں اور شبہات کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔
پچیس سال قبل بیٹے اور پھر بیٹی کو کھو دینے کا غم آج بھی موجود تھا۔ وہ با وجود کوشش کے انہیں بھلا نہیں پائی تھی۔ امی کو ناشتہ کرادیا تھا؟ ہاں ! تم اسٹیٹ ایجنسی جانے سے پہلے ان سے مل لینا۔ یا سر فاروق صحن سے ملحق ماں کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ ان کے بستر کے قریب کرسی کھینچتے ہوئے اس نے خوش خلقی سے خیریت دریافت کی۔ امی ! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ امی کے لرزیدہ ہونٹ کھلے ۔ انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی۔ یاسر فاروق نے ان کے لرزتے ہوئے ہاتھ کو تھام کر بوسہ دیا۔ کچھ دیر امی کے پاس وقت گزار کر وہ اسٹیٹ ایجنسی کی طرف روانہ ہو گیا۔

راحم کی روانگی سے پہلے یا سر نے اس سے ملاقات کی۔ باتوں کے دوران اس نے راحم سے اس کے شہر کا پتا اور اس کے والد کا نام ، بزنس کی دیگر تفصیلات معلوم کر لیں۔ تیسرے دن یا سر فاروق اپنی پرانی قیام گاہ پر پہنچا۔ پرانی طرز کی اس بلڈنگ میں ان کا فلیٹ تھا۔ پچیس سال قبل یہاں وہ اور فریدہ، بیٹے کا مردہ جسم لئے اسپتال سے لوٹے تھے۔ یہاں اس کا ایک پرانا دوست مدثر رہتا تھا۔ مدثر کا تعلق پولیس کے محکمے سے تھا۔ بد عنوانی اور افسران سے بد تمیزی کرنے کی پاداش میں اسے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑ گئے تھے۔ یا سر فاروق جب مدثر کے اپارٹمنٹ میں پہنچا تو وہ داخلی دروازے کے باہر کھڑا تھا۔ مدثر نے حیرت سے اسے دیکھا۔
کیا بات ہے تم اچانک آئے ہو، خیریت تو ہے ؟ دو تم کیا کہیں جارہے تھے ؟ یاسر فاروق نے اسے باہر کھڑا دیکھ کر پوچھا۔ ارادہ تو تھا کہیں جانے کا، گھر میں بور ہو رہا تھا۔ میری بیوی اپنی بہن کے گھر گئی ہوئی ہے۔ تم اندر آئو، میری بوریت دور ہو جائے گی۔ مدثر ا سے ساتھ لئے ڈرائنگ روم میں چلا آیا۔ تم خاصے موٹے اور بے ڈول ہو گئے ہو۔ مدثر نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ در صبح کی واک جو چھوڑ دی۔ پیر کی ہڈی میں تکلیف ہو گئی تھی سو واک ترک کرنا پڑی۔اب خاصا افاقہ ہے۔
سوچ رہا ہوں دوبارہ واک شروع کر دوں۔ مدثر ! مجھے ایک ضروری بات تم سے کرنی تھی۔ میرے بیٹے کی موت واقع نہیں ہوئی تھی۔ تم میری اس بات پر یقین نہیں کرو گے مگر میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ میں چند روز پہلے جس ہمشکل لڑکے سے ملا ہوں، وہ میرا بیٹا ہے۔ اچھا ! کیا اس لڑکے کی عمر بھی تمہارے بیٹے کی عمر جتنی ہے ؟ مدثر نے اس کی بات میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ وہ خود بے اولاد تھا مگر بچوں سے اسے بڑی انسیت تھی۔ اس لڑکے کی عمر اتنی ہی ہے جتنی اب میرے بیٹے کی ہونی چاہئے ، یعنی پچیس سال ! اس کی مجھ سے مشابہت کو ریسٹورنٹ میں میرے ساتھ کام کرنے والے اور لوگوں نے بھی محسوس کیا ہے ۔
اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے دیکھ کر مجھے ایک عجیب احساس یگانگت محسوس ہوا۔ پہلی نظر میں جب میں نے اسے دیکھا، میرے جسم و جاں میں ایک انسیت کی جاگی تھی۔ میں تمہیں کیا بتائوں، وہ کیسا احساس تھا۔ مد ثر اس کی بات ختم ہوتے ہی بولا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے یا سر ! تمہارا بیٹا مر چکا ہے ، اس کی لاش کو تم نے خود دفن کیا ہے۔ وہ لاش جو مجھے دی گئی تھی ، وہ کسی اور کے بچے کی بھی ہو سکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹر نے میرے بیٹے کو کسی اور کے حوالے کر دیا۔
یقینا اس نے دولت کے لالچ میں ایسا کیا ہو گا۔ پھر تم ڈاکٹر کو تلاش کر کے اس سے حقیقت اگلوانے کی کوشش کرو اور یوں ظاہر کرو کہ تم حقیقت جاننے کے بعد اس کے پاس آئے ہو۔ اگر وہ اپنی زبان نہیں کھولے گی تو پھر کوئی اور حربہ آزمائیں گے ، فی الحال تم اس سے اکیلے ملو۔ د میں ابھی جا کر اس کے کلینک کے بارے میں معلومات کرتا ہوں۔ وہ کس وقت وہاں ہوتی ہے۔ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ بیٹھو تو سہی، چائے تو پی لیتے۔ مدثر نے کہا۔ فی الحال مجھے اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کی جلدی ہے۔ میں سخت اضطرابی کیفیت میں ہوں۔ یا سر فاروق یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آیا۔
کسی زمانے میں ڈاکٹر سنجیدہ کا چھوٹا سا اسپتال تھا، جسے اب اس کی بیٹی نے سنبھال لیا تھا۔ ڈاکٹر سنجیدہ وہاں شام میں ایک گھنٹے کے لئے آتی تھی۔ ڈاکٹر سنجیدہ سے ملنے یاسر فاروق اس کے کمرے میں پہنچا تو اس نے اس کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جی فرمائیے ؟ اس کی آنکھوں میں یاسر کے لئے شناسائی نہیں تھی۔ جو ریوالور یا سر نے مدثر سے مستعار لیا تھا، جیب میں اس کا بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔ پچیس سال پہلے آپ کے ہاتھوں میرے بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔
بیٹے کے پیدا ہونے کے بعد آپ نے مجھے بتایا تھا کہ اسے سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے پھر کچھ دیر بعد مجھے اس کی موت کی اطلاع دی گئی تھی۔ اب پچیس سال بعد میری ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی جو مجھ سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس بات کو میرے علاوہ اور لوگوں نے بھی نوٹ کیا ہے۔ لڑکے کا کہنا ہے اس کے والدین نے اسے گود لیا ہے۔
آپ کیا کہتی ہیں ڈاکٹر …؟ یا سر فاروق نے آخری جملہ کہتے ہوئے غلط بیانی سے کام لیا۔ یہ آپ کسی قسم کی احمقانہ بات کر رہے ہیں ؟ یہاں سے فوراً چلے جائیں۔ یا سر فاروق نے کرسی سے اٹھ کر دروازہ لاک کر دیا۔ اگلے لمحے اس نے ڈاکٹر سنجیدہ کے ہاتھ سے فون چھینتے ہوئے جیب سے ریوالور نکال لیا۔ ریوالور دیکھ کر ڈاکٹر سنجیدہ کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔
آپ کیا چاہتے ہو ؟ اس کے منہ سے بمشکل نکلا۔ د میں صرف سچ سننا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر سنجیدہ چند منٹ خاموش رہی، جیسے بولنے سے پہلے سوچ رہی ہو۔ میں آپ کو حقیقت بتانے کو تیار ہوں۔ وہ شاہنواز رئیسانی تھا۔ اس نے مجھے اتنی بڑی رقم کی پیشکش کی تھی کہ میں لالچ میں آگئی۔ ان کے ہاں اولاد ہوتی تو تھی مگر زندہ نہیں رہتی تھی۔ شاہنواز کی بیوی سخت ذہنی دبائو کا شکار رہنے لگی تھی۔ شاہنواز کو اپنی بیوی کی بڑی فکر تھی۔اس نے بیوی کی زندگی بچانے کے لئے مجھ سے یہ کام کروایا تھا۔
جس دن آپ کا بیٹا پیدا ہوا تھا، اس کے کچھ دیر بعد ہی شاہنواز کی بیوی نے مردہ بچے کو جنم دیا تھا۔ میں نے اس مردہ بچے کو تمہارے حوالے کر دیا تھا۔ میں اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہوں۔ میں نے واقعی بہت بڑی غلطی کی ، بہت بڑا جرم کیا۔ یا سر فاروق کچھ دیر سوچتا رہا، پھر اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔ مجھے نہیں معلوم، میں آپ کے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔
بہت ممکن ہے میں آپ کو پولیس کے حوالے کردوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ریوالور واپس ج میں رکھ لیا۔ مجھے سب سے پہلے شاہنواز رئیسانی سے ملنا ہو گا۔ جیب یا سر فاروق کے جارحانہ تیور دیکھتے ہوئے ڈاکہ تیور دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سنجیدہ بولی۔ آپ یہ کیوں آپ یہ کیوں نہیں سمجھ لیتے کہ آپ کا بیٹا زندہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی تو آپ اسے مردہ سمجھتے رہے ہیں۔
آپ اپنی زبان بند رکھنے کی کیا قیمت لیں گے ؟ عورت ہونے کے ناتے میں آپ پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ میرا بیٹا زندہ ہے ، میں اسے مردہ کیسے مان لوں ۔ آپ اپنی آفر اپنے پاس رکھیں۔ یاسر فاروق دروازے کا لاک کھول کر غصے میں تنتناتا ہوا باہر نکل گیا۔
کئی دن تک یاسر فاروق اس ادھیڑ بن میں رہا کہ اسے کیا کرنا چاہئے ۔ جتنا وہ سوچتا، اتنا خود کو پریشان پاتا۔ اس کی حالت جیل میں قید اس قیدی کی سی تھی جسے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہ آرہا ہو۔ وہ فریدہ کو کچھ نہیں بتا سکتا تھا۔ وہ ہنگامہ کھڑا کر دیتی۔ نہ ہی وہ راحم کے پاس جا کر یہ کہہ سکتا تھا کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔
یہ علم ہو جانے کے بعد کہ یاسر فاروق اس کا حقیقی باپ ہے، راحم کی پر سکون زندگی میں طوفان برپا ہو سکتا تھا۔ راحم جذبات میں آکر کچھ بھی کر سکتا تھا۔ وہ اگر اس کے شہر جا کر شاہنواز سے ملتا تو وہ اس کے لئے خطر ناک بھی ہو سکتا تھا۔ راحم کو وہ گزشتہ پچیس برس سے اپنے بیٹے کی طرح رکھے ہوئے ہے۔ اس کے پاس بے پناہ دولت ہے، جس کے بل پر وہ بہت کچھ کر سکتا ہے۔ یا سر فاروق خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔ وہ عدالت کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔
نہ ہی اپنے بیٹے سے دستبردار ہونے کو تیار تھا۔ یاسر فاروق کو پورا یقین تھا کہ ڈاکٹر سنجیدہ نے شاہنواز کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا ہو گا اور نہ شاہنواز نے حالات سے مقابلے کی تدبیریں شروع کر دی ہوں گی، تاکہ اس کی پر سکون زندگی میں آنے والے کسی بھی خطرے کا سد باب قبل از وقت ہو جائے۔ یا سر فاروق سوچوں میں گم بستر پر لیٹا تھا کہ فریدہ خاموشی سے اندر چلی آئی۔ اس کے کمرے میں آنے کی اسے خبر نہ ہوئی۔ د میں کئی دنوں سے محسوس کر رہی ہوں تم کچھ پریشان سے رہنے لگے ہو۔ فریدہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔ کچھ دنوں سے بیٹے کی کمی کا احساس شدت سے ہو رہا ہے۔ دو میں سمجھ سکتی ہوں۔
میں خود آج تک اپنے بچوں کو نہیں بھلا پائی۔ فریدہ نے ایک سرد آہ بھری۔ بہت دنوں سے ماریہ نہیں آئی۔ میرا اس سے ملنے کو دل چاہ رہا تھا۔ یاسر فاروق کے استفسار پر فریدہ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ میں جانتی ہوں اس لئے میں نے اسے شام میں بلایا ہے۔ آج وہ ڈنر ہمارے ساتھ کرے گی۔ ٹھیک ہے ، میں شام میں گھر پر ہی رہوں گا۔
یہ کہتے ہوئے اس نے گھڑی پر نظر ڈالی ۔ میں ایجنسی میں جارہا ہوں، کوئی چیز منگوانی ہے تو بتا دو۔ فریدہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔ یا سر فاروق نے کپڑے تبدیل کئے اور گھر سے روانہ ہوا۔ اسٹیٹ ایجنسی پہنچ کر اسے ایک گھنٹہ ہوا تھا کہ فون کی بیل بجی۔ مسٹر یا سر ! ایک اجنبی آواز ابھری۔ میں شاہنواز رئیسانی بول رہا ہوں۔ کیا تم مجھ سے باہر آکر ملاقات کر سکتے ہو ؟ میری کار ایجنسی کے باہر موجود ہے۔ آپ اندر کیوں نہیں آجاتے ؟ اچھا ہے ہم لوگ اکٹھے نہ دیکھے جائیں۔
یہ ہم لوگوں کے ساتھ ساتھ راحم کے حق میں بھی بہتر ہے۔ بات بالکل واضح ہو گئی تھی۔ شاہنواز کو ساری باتوں کا علم ہو چکا ہے ۔ یا سر فاروق نے سوچا۔ یہ شخص جو تجارت کے مسائل حل کرنے کا ماہر مانا جاتا ہے ، یقینا کوئی ایسی راہ نکالے گا جس سے اس کا دکھ کم ہو سکے۔ او کے ! میں آتا ہوں۔ ایجنسی سے کچھ فاصلے پر شاہنواز کی قیمتی کار کھڑی تھی۔
شاہنواز نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا۔ کار کا پچھلا دروازہ کھلا ، یاسر فاروق بیٹھ گیا۔ شاہنواز رئیسانی گرے رنگ کے قیمتی سوٹ میں ملبوس تھا۔ اس کا چہرہ سرخ و سفید تھا۔ تمہارے آنے کا شکریہ ! شاہنواز بولا ۔ کار آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔ آپ مطلب کی بات کریں۔ واقعے کی حقیقت جاننے کے بعد میری کیفیت کو آپ نہیں سمجھ سکتے ۔ دو غلطی میری ہے، مجھے راحم کو یہاں نہیں بھیجنا چاہئے تھا۔ یہ بات میرے وہم و گمان میں نہیں تھی کہ یہاں اس کی تم سے ملاقات ہو جائے گی اور تم اس سے اپنی مشابہت کی بنا پر اسے شناخت کر لو گے اور ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر بیچ اگلوالو گے۔ میں تمہاری ہمت اور ذہانت کی داد دیتا ہوں۔
تم نے جو تیر چلایا، وہ نشانے پر لگا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں خود پر کتنا قابورکھتا، اگر میں تمہاری جگہ ہوتا۔ ہم وقت کو پیچھے نہیں لے جاسکتے ، میں تمہارے نو مولود بیٹے کو تمہیں نہیں دے سکتا کیو نکہ اب وہ ایک جوان لڑکا ہے اور مجھے اور میری بیوی کو ماں ، باپ سمجھتا ہے۔ ہم میاں، بیوی اسے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں، وہ بھی ہمیں دل و جان سے چاہتا ہے۔ بہتر ہے تم مجھے کار سے اتر جانے دو۔ یا سر فاروق بیزاری سے بولا۔ دو نہیں ! میری بات غور سے سنو۔ ہمارے پاس دو راستے ہیں۔
اس بریف کیس میں بہت بڑی رقم موجود ہے، ایک کروڑ روپے …! بہت ممکن ہے میری پیشکش سے تمہیں تکلیف پہنچ رہی ہو لیکن بتائو میں تمہیں پہنچنے والے نقصان کی اور کس طرح تلافی کروں ؟ یقین کرو یہ آج کی بڑی حقیقت ہے۔ بے شمار لوگ اسی تمنا میں مر جاتے ہیں کہ ان کے پاس دولت کی فراوانی ہو کہ زندگی کو زندگی کی طرح گزار سکیں۔ دو تم نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے دو طریقے ہو سکتے ہیں ؟ یاسر فاروق نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے پوچھا۔ شاہنواز کے چہرے سے تردد جھلک رہا تھا۔
تم مجھ سے تعاون سے انکار کرتے ہو تو مجھے لازماً اپنی عزت و وقار ، اپنے گھر کی خوشیوں کی خاطر کوئی انتہائی قدم اٹھا نا پڑے گا اور میں ایسا نہیں چاہتا۔ یاسر فاروق خاموش رہا۔ شاہنواز نے نوٹوں سے بھرا بریف کیس کھول کر اس کے سامنے کر دیا۔ یا سر فاروق کے پاس سوچنے کے لئے بہت کچھ تھا۔ اپنی بیمار ماں کے لیے پرائیویٹ نرس کا انتظام ، اپنا کاروبار اور ذاتی گھر ! وہ اپنی تشنہ آرزوئوں کی تکمیل کر سکتا تھا جن کے منصوبے وہ زندگی بھر بناتا رہا تھا۔ یاسر فاروق کے دل میں ایک کشمکش جاری تھی۔
دو مجھے تمہاری اندرونی کیفیت کا اندازہ ہے۔ راحم کو دیکھ کر تم پر کیا گزر رہی ہو گی، بے شک وہ تمہارا بیٹا ہے لیکن جس شخص کو وہ باپ مانتا ہے، وہ میں ہوں۔ وہ مجھ سے شدید محبت کرتا ہے۔ اگر کچھ غلط ہو گیا تو اس کی زندگی جہنم بن جائے گی۔ عدالت کے چکر ، میڈیا میں تشہیر … ! بہت سی باتیں جن سے اس کی زندگی تلخ ہو جائے گی۔
اور تمہاری زندگی …! کم از کم تم جہاں رہتے ہو ، اسی شہر کی جیل میں تمہیں رہنا پڑے گا۔ یاسر فاروق نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ یہ بات آج سے بیس بائیس سال پہلے ممکن تھی ، اب ایسا نہیں ہو گا۔ مجھ میں اتنی قوت اور میرے پاس اتنی دولت ہے کہ میں قانون کو خرید سکتا ہوں۔ اس کے برعکس تم کسی حادثے میں اپنی جان گنوا سکتے ہو۔ دو تم مجھے ڈرا رہے ہو ، میں موت سے ڈرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ دو بہتر ہے تم اس معاملے پر چپ سادھ لو۔ میری بیوی کے لئے یہ انکشاف جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
میں اپنی بیوی کو کوئی دکھ دینا نہیں چاہتا۔ آج میں جس مقام پر ہوں، میری کامیابی کے پیچھے میری بیوی کا ہاتھ ہے۔ میں چاہتا تو دوسری شادی کر کے اولاد کی خواہش پوری کر سکتا تھا، مگر میں اپنی بیوی کو دکھ دینا نہیں چاہتا۔ تم ابھی جذباتی ہو رہے ہو ، ٹھنڈے دل سے سوچنا۔ تم راحم کا ذہنی سکون تباہ کرنے کے درپے ہو۔ میرا نہیں تو کم از کم اس کے سکون کا خیال کر لو۔
یہ کہتے ہوئے شاہنواز نے رقم سے بھرا بریف کیس آہستہ سے تھپتھپایا۔ اسے رکھ لو، تم اپنے بہت سے خوابوں کی تعبیر پا سکو گے۔ یاسر فاروق نے بریف کیس اس سے لے لیا۔ شاہنواز کی کار واپس اسٹیٹ ایجنسی کی طرف چلی۔ ایجنسی سے کچھ فاصلے پر یا سر فاروق بریف کیس اٹھائے کار سے اترتے ہوئے بولا ۔ ایک بات اچھی طرح سے سن لو۔ اس راز میں میرے علاوہ میرا ایک بااثر دوست بھی شریک ہے۔ میرے ساتھ تم نے کوئی غلط حرکت کی تو وہ پوری کہانی پولیس تک پہنچا دے گا۔
کیا میں تمہارے اس بااثر دوست کا نام پوچھ سکتا ہوں۔ دو تم نے مجھے کیا بے وقوف سمجھا ہے۔ اس کا نام بتانے کا مطلب یہ ہو گا کہ میں اپنے پائوں پر کلہاڑی مار دوں۔ جائو بہتر یہی ہے کہ ہماری آئندہ ملاقات نہ ہو ۔ شاہنواز نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور کار آگے بڑھ گئی۔ یا سر فاروق بریف کیس ہاتھ میں لئے سوچ رہا تھا کہ اسے رقم کو بینک میں جمع کروانا چاہئے یا گھر لے جانا چاہئے ۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے ٹیکسی پکڑی اور گھر روانہ ہوا۔ اپنے پاس اتنی بڑی رقم کی موجودگی سے اسے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ راستے بھر وہ متوقع ڈاکو کی موجودگی سے خوف زدہ رہا۔
گھر پہنچا تو فریدہ نے اس کے ہاتھ میں بریف کیس دیکھ کر استفسار کیا۔ اس میں کیا ہے ؟ اس میں کسی کے مکان کے کاغذات ہیں۔ اگر سودا ہو گیا تو خاصی بڑی رقم ہاتھ آئے گی۔ دم بھی کچھ دیر پہلے تمہارے دوست مدثر کا فون آیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ تمہارا موبائل بند ہے۔ آج تم جلدی آگئے؟ خیریت تو ہے؟ ہاں ! خیریت ہے۔
میں مدثر کو فون کر لیتا ہوں۔ یاسر فاروق فوراً مد ثر کا نمبر ملا کر بولا۔ خیر تو ہے تم مجھے فون کر رہے تھے ؟ ہاں ! میں نے یہ پوچھنے کے لئے فون کیا تھا کہ تم نے جو انکشاف کیا تھا، اس کے بعد تمہارا کیا ارادہ ہے۔ تم شاہنواز کے خلاف کیس دائر کرو گے ؟ د سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں۔ وہ آج آیا تھا۔ میں تمہارے پاس آکر تمہیں تفصیل بتاتا ہوں۔ د مجھے بھی تمہیں ایک بات بتانی تھی۔ میں آج ڈاکٹر سنجیدہ کے کلینک گیا تھا۔ میں نے اسے پولیس کا پرانا کارڈ دکھایا۔ اسے کیا معلوم کہ اب یہ کار ڈکار آمد نہیں ہے۔ میں نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ وہ تم سے تعاون کرے۔ مدثر ! میں نہیں سمجھتا کہ تم نے کوئی عقلمندی کا کام کیا ہے۔ میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا !‘ مدثر کے لہجے میں حیرانی تھی۔ دو میں تمہارے پاس آرہا ہوں، باقی باتیں وہیں ہوں گی۔ یا سر فاروق نے موبائل آف کر دیا۔ فریدہ بولی۔ یہ مدثر کے ساتھ کیا کھچڑی پک رہی ہے ؟ اس سے دوستی اچھی نہیں ہے۔ مجھے پتا ہے ۔ کچھ کام ہے تب ہی اس کے پاس جارہا ہوں، ورنہ مجھے بھلا کہاں فرصت ہے۔
یاسر فاروق جیسے ہی مدثر کی بلڈنگ کے پاس پہنچا تو گیٹ کے باہر لوگوں کا جمگھٹا لگادیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ لوگوں کی زبانی اسے پتا چلا کہ مدثر کچھ دیر پہلے سامان لینے کی غرض سے نکلا تھا کہ تیز رفتار ٹرک کی زد میں آکر ہلاک ہو گیا۔ یا سر فاروق یہ سنتے ہی اسپتال روانہ ہو گیا۔ اسپتال پہنچنے تک یا سر فاروق کا ذہن الجھا رہا۔ پورے راستے وہ سوچتا رہا کہ اگر مد ثر اس کے معاملے میں نہ پڑتا تو آج زندہ ہوتا۔ مدثر کی لاش ضروری کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی تھی۔
اس کی تدفین تک یا سر فاروق اس کے اپارٹمنٹ میں رہا۔ گھر پہنچتے ہوئے وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اسے اگلا قدم کیا اٹھانا ہے۔ اس کے پاس مدثر کاریوالور موجود تھا۔ وہ شاہنواز کو ختم کر دینا چاہتا تھا۔ وہ مدثر کی موت کا ذمہ دار شاہنواز کو سمجھ رہا تھا۔ گھر جاتے ہی وہ بستر پر لیٹ کر تھکن اتارتے ہوئے سوچنے لگا کہ اگلا قدم کیا اٹھانا ہے۔ فریدہ اس کے لئے کھانا لے کر آگئی ۔ کل سے تم مدثر کے گھر پر تھے ، کھانا کھالو، تھکن سے تم نڈھال نظر آرہے ہو۔ یا سر فاروق اٹھ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑا سا کھانا کھا کر اس نے ٹرے ایک طرف سر کا دی اور الماری سے بریف کیس نکال کر فریدہ کے حوالے کر دیا۔ یہ رقم بینک میں جمع کرا دینا۔ فریدہ نے بریف کیس کھول کر اس پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور بولی۔ تم تو کہہ رہے تھے اس میں کسی مکان کے کا غذات ہیں، یہ تو خاصی بڑی رقم ہے۔ پورے ایک کروڑ ہیں ۔ یہ رقم ہماری ہے۔ اب تم ایک دولت مند آدمی کی بیوی ہو۔
یاسر فاروق نے گمبھیر آواز میں کہا۔ یہ رقم تمہیں کہاں سے ملی ؟ فریدہ نے سنجید گی سے پوچھا۔ د میں نے بہت پہلے ایک پلاٹ خریدا تھا۔ اس کا ذکر میں نے تم سے نہیں کیا۔ اس کی قیمت پندرہ سالوں میں کافی بڑھ گئی ہے۔ میں نے وہ بیچ دیا ہے ۔ مجھے تمہاری اس بات پر یقین نہیں آرہا ہے۔ دیقین نہیں آرہا تو مت کرو۔ تم اس معاملے میں مجھ سے بحث نہیں کرو گی ۔ مدثر کی موت سے میں سخت اپ سیٹ ہوں، اوپر سے تم مجھے سکون نہیں لینے دے رہی ہو۔ ٹھیک ہے ، آپ آرام کریں۔ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔ فریدہ کے کمرے سے جانے کے بعد یاسر فاروق لیٹ گیا۔
اس کا ذہن مدثر کی ناگہانی موت میں الجھا ہوا تھا۔ میں نے بڑی غلطی کی جو مدثر کو اپنے راز میں شامل کر لیا، پھر اس سے بڑی ایک اور غلطی کی کہ شاہنواز کے سامنے انکشاف کر دیا کہ میرا ایک ساتھی بھی ہے جو ان تمام باتوں سے آگاہ ہے۔ مدثر نے بہت بڑی بے وقوفی کی کہ اپنے طور پر دوڑا ہوا ڈاکٹر کے پاس چلا گیا اور اپنی شناخت کروادی۔ یا سر فاروق نے کروٹ لی اور سوچنے لگا کہ اگر وہ کچھ نہیں کرے اور اس معاملے میں چپ سادھ لے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ شاہنواز اسے زندہ چھوڑ دے گا۔
مدثر کی موت کے بعد اب شاہنواز کی راہ میں صرف ایک شخص کھڑا ہے جو اسے مجرم ثابت کر سکتا ہے۔ پولیس نے مدثر کے ایکسیڈنٹ کو حادثہ قرار دیا تھا۔ ٹرک ڈرائیور گرفتار ہو گیا تھا اور اس نے اپنا جرم قبول کر لیا تھا، مگر یا سر فاروق کو یہ سب شاہنواز کا منصوبہ لگ رہا تھا۔ اس نے اسی وقت شاہنواز کا فون نمبر ملایا۔ کافی دیر بیل جانے کے بعد شاہنواز نے فون اٹھا لیا۔ ہیلو! میں یا سر بات کر رہا ہوں۔ دو تم نے مجھے فون کرنے کی زحمت کیوں گوارا کی۔ کہو کیا مزیدر تم چاہئے؟ شاہنواز کے لہجے میں سخت ناگواری تھی۔
تم نے مدثر کو مروا کر اچھا نہیں کیا۔ میں تمہیں ہر گز معاف نہیں کروں گا۔ دو کون مدثر…؟ تم سراسر مجھ پر الزام لگا رہے ہو۔ شاہنواز غصے میں چلایا۔ انجان بننے کی ضرورت نہیں۔ مدثر میرا دوست تھا جو میرے علاوہ راحم کی اصلیت جانتا تھا۔ تم نے …! شٹ اپ ! بکواس بند کرو، تم بلا وجہ مجھ پر الزام لگا رہے ہو۔ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ میں راحم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے تمہارے دوست کو قتل نہیں کیا ۔ شاہنواز اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ راحم کون سا تمہاری حقیقی اولاد ہے جو میں تمہاری بات پر یقین کر لوں۔ حقیقی اولاد نہ سہی مگر میں اور میری بیوی اسے اپنی سگی اولاد سمجھتے ہیں۔
تم ہوا میں تیر چلا رہے ہو۔ میرے اور تمہارے درمیان آئندہ کوئی گفتگو نہیں ہو گی۔ تم میرا اور میرے گھر کا سکون برباد کرنا چاہتے ہو۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ تم میرے ہی نہیں میرے دوست کے بھی مجرم ہو۔ تم مجھ پر قتل کا جھوٹا الزام لگارہے ہو۔ میرے اور تمہارے درمیان معاملات طے پانے کے بعد مجھے کسی کو مروانے کی کیا ضرورت تھی۔ تم جذباتی ہو کر سوچ رہے ہو۔ ہوش سے کام لو، کیوں اپنا اور میر اذہنی سکون تباہ کر رہے ہو ؟ شاہنواز نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ دو تم اپنی صفائی میں جو چاہے کہہ لو، میں وہی کروں گا جو میرا دل چاہے گا۔ شاہنواز نے فون کاٹ دیا۔ یا سر فاروق دوبارہ لیٹتے ہوئے بڑ بڑایا۔ میں نے جو سوچا ہے ، وہی کرنا چاہئے ۔ بہترین دفاع حملے میں پہل کرنا ہے ۔ سوچتے سوچتے یا سر فاروق کی آنکھ لگ گئی۔
وہ دن اس نے بڑی مشکل سے گزارہ۔ رات میں اس نے فریدہ کو بتایا کہ وہ اسٹیٹ ایجنسی کے کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جارہا ہے اور صبح ہی روانہ ہو جائے گا۔ تم ؟ کب تک واپس آئو گے ؟ فریدہ نے پوچھا۔ دم بھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ زمین کے سودے کے سلسلے میں جارہا ہوں۔ کام ہوتے ہی لوٹ آئوں گا۔ فریدہ نے اس کی بات سمجھتے ہوئے سر ہلا دیا۔ اگلے دن صبح چار بجے یا سر فاروق نے بستر چھوڑ دیا۔ غسل کرنے اور تیار ہونے کے بعد وہ اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔
اس کے لئے یہ شہر ا جنبی نہیں تھا۔ راحم کا دیا ہوا پتا اس کے پاس موجود تھا۔ تھوڑی سی دشواری کے بعد وہ شاہنواز کی کو ٹھی کے باہر موجود تھا۔ اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو بل ادا کیا اور کو بھی کے نزدیک موجود درختوں کے پاس کھڑا ہو گیا۔ کو ٹھی کے آہنی گیٹ کے پاس گھنے درخت تھے ۔ گیٹ کے سامنے شاہنواز کی کار کھڑی تھی جسے وہ دیکھتے ہی پہچان گیا تھا۔ شاہنواز ایسے درخت کی آڑ میں کھڑا تھا جہاں سے وہ کوٹھی کے گیٹ پر نظر رکھ سکتا تھا۔ یاسر فاروق باہر کھڑا شاہنواز کا انتظار کرنے لگا۔ نو بجے کے بعد کو تھی کے داخلی گیٹ سے ڈرائیور نکلا، اس نے کار کی ڈرائیونگ نشست کا دروازہ کھولا۔
کار صاف کرنے والا کپڑا کار کے اندر سے نکالا اور چمچماتی کار مزید صاف کرنے لگا۔ یا سر فاروق اسی وقت کا منتظر تھا۔ اس نے اپنی جیب میں موجود ریوالور پر ہاتھ پھیرا ۔ کار پر کپڑا پھیرنے کے بعد ڈرائیور نے اپنی دستی گھڑی پر نظر ڈالی۔ ہر چیز بالکل تیار تھی۔ ڈرائیور چاق و چوبند کھڑا تھا، جیسے کسی بھی لمحے اسے اپنے مالک کی آمد متوقع ہو۔ چند سیکنڈ بعد گیٹ کھلا۔ یاسر فاروق نے دیکھا اس سے کچھ فاصلے پر شاہنواز کھڑا ہے۔ شاہنواز سفید سوٹ میں ملبوس تھا۔ اس کی شخصیت اس کی شان و شوکت کو ظاہر کر رہی تھی۔ یا سر فاروق بے تحاشاد وڑتا ہوا اس کے نزدیک پہنچ گیا۔ شاہنواز نے اپنی جانب یا سر فاروق کو آتا ہوا اور اس کے ہاتھ میں درباریوالور د یکھا تو کسی قدر بد حواس ہوا۔ یاسر فاروق نے اسے نشانے پر لے لیا۔ ایک منٹ ذرا میری بات سنو ۔
شاہنواز نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔ اس لمحے گیٹ پر موجود گارڈ نے گن تان لی۔ یاسر فاروق پریشان ہوا کیونکہ شاہنواز اس کے ریوالور کی زد میں تھا۔ گارڈ اس پر فائر کرنے کی حماقت نہیں کر سکتا تھا۔ عین اسی وقت کھلے گیٹ سے راحم باہر نکلا، اس کی نگاہ یا سر فاروق اور اس کے ہاتھ میں پکڑے ریوالور پر گئی۔ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ؟ اس کی اور یاسر فاروق کی آنکھیں ایک دوسرے سے ملیں۔ راحم کے چہرے کے رنگ تیزی سے بدلنے لگے ۔ وہ اسے یہاں دیکھ کر حیران ہوا، لیکن کسی قیامت کے احساس سے خوف زدہ ہو گیا اور کچھ سمجھنے کی کوشش میں پلکیں جھپکانے لگا۔ یا سر فاروق نے اسے ڈوبی ڈوبی نظروں سے دیکھا۔ گارڈ کے ریوالور نے یکے بعد دیگرے دو گولیاں انگلیں۔ دونوں گولیاں یا سر فاروق کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔
اس کے ہاتھوں میں ابھی طاقت تھی۔ شاہنواز اس کے نشانے پر تھا۔ راحم اس کے قریب آ گیا تھا۔ یاسر فاروق کی نگاہیں ان دونوں کے وجود سے ٹکرائیں۔ اس نے لڑکھڑاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے ریوالور کا رخ زمین کی جانب کر دیا۔ ڈیڈ ! یہ شخص آپ کو کیوں مارنا چاہتا تھا۔ میں اس شخص کو جانتا ہوں۔ یہ اسلام آباد کو جانتا ہوں۔ یہ اسلام آباد کے ایک ریسٹورنٹ میں کام کرتا ہے۔ گارڈ وحشت کے عالم میں یا سر فاروق پر جھکا اس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یا سر فاروق کے پاس چند لمحے رہ گئے تھے۔ اس کی بینائی تیزی سے ختم ہو رہی تھی۔ وہ ابدی نیند کی وادیوں میں جارہا تھا۔ یا سر فاروق مرنے سے پہلے مطمئن تھا۔ اس نے آخری لمحے میں ایک صحیح فیصلہ کیا تھا۔ اسے اسپتال لے چلیں ؟ راحم بولا۔ یہ تو مر چکا ہے۔
ڈرائیور نے نبض ٹولنے کے بعد کہا۔ انسان بھی بھی عجیب حرکتیں کرتا ہے۔ سمجھ میں نہ آنے والی ! شاہنواز بڑ بڑایا۔ ارد ارد گرد لوگ جمع ہونے لگے کچھ تھے۔ شاہنواز نے راحم کا بازو پکڑ کر کہا۔ آئو اندر چلیں، پولیس کو اس واقعے کی اطلاع کرنی ہے۔ راحم نے ایک نظر یا سر فاروق کے مردہ چہرے پر ڈالی اور شاہنواز کے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گیا۔
انتقام کی راہ اکثر وقتی تسکین تو دیتی ہے، مگر طویل مدتی طور پر اس کے نتائج زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔ نفسیاتی، جذباتی، اور قانونی اثرات اس راستے کو غیر مؤثر ثابت کرتے ہیں۔ منفی جذبات کو مثبت راستے میں ڈالنا، جیسے کہ ذاتی ترقی، قانونی انصاف، یا معافی، زیادہ پرسکون اور تسلی بخش متبادل ثابت ہو سکتے ہیں۔ اصل کامیابی انتقام میں نہیں، بلکہ اس کی ضرورت سے بلند ہونے میں ہے۔

انتقام کی راہ سے متعلق اکثر پوچھے جانے والے سوالات
1. لوگ انتقام کیوں لیتے ہیں؟
انتقام لینے کی بنیادی وجہ خودی کی بحالی اور انصاف کا احساس ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق، 60% افراد جو دھوکہ دہی یا ناانصافی کا شکار ہوتے ہیں، فوراً بدلہ لینے کی خواہش محسوس کرتے ہیں۔ تاہم، مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انتقام اکثر دیرپا تسکین نہیں دیتا۔
2. کیا انتقام واقعی تسکین دیتا ہے؟
جرنل آف پرسنالٹی اینڈ سوشل سائیکالوجی میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق، انتقام لینے والے افراد ابتدائی طور پر راحت محسوس کرتے ہیں، لیکن بعد میں ذہنی دباؤ اور پریشانی کا سامنا کرتے ہیں۔
انتقام ذہنی صحت پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟
انتقام کی خواہش ذہنی دباؤ، اضطراب اور ڈپریشن کا سبب بن سکتی ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ معاف کرنے والے افراد زیادہ پر سکون اور خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔
انتقام کے قانونی نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟
کئی ممالک میں انتقامی اقدامات کو جرم سمجھا جاتا ہے اور یہ قانونی کارروائی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے انصاف فراہم کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں تاکہ ذاتی انتقام کے بجائے قانونی طریقے اپنائے جا سکیں۔
کیا انتقام کا کوئی متبادل موجود ہے؟
ہاں، معافی، ذاتی ترقی، اور قانونی طریقے زیادہ بہتر متبادل ہیں۔ ماہرین نفسیات منفی توانائی کو مثبت سمت میں منتقل کرنے کی تجویز دیتے ہیں، جیسے کہ خود کی بہتری یا دوسروں کی مدد کرنا۔
انتقام کے منفی اثرات
جذباتی بوجھ – انتقام کی خواہش ذہنی دباؤ اور پریشانی کو بڑھاتی ہے۔
جسمانی صحت پر اثر – تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ انتقام کی سوچ رکھنے والے افراد کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے اور دل کی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
رشتوں میں بگاڑ – بدلہ لینے کی کوشش قریبی تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے اور دشمنی کو ہوا دے سکتی ہے۔
قانونی مسائل – انتقام کے نتیجے میں قانونی کاروائیاں ہو سکتی ہیں، جس کا طویل مدتی نقصان ہو سکتا ہے۔
وقت اور توانائی کا ضیاع – انتقام کی جستجو ذہنی اور جسمانی توانائی کا زیاں ثابت ہو سکتی ہے۔
کیا انتقام کبھی جائز ہو سکتا ہے؟
زیادہ تر ماہرین نفسیات انتقام کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن کچھ کا ماننا ہے کہ انتقام کبھی کبھار سدِباب کے طور پر کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، مجرموں کو سزا دینے کا نظام اسی اصول پر کام کرتا ہے تاکہ دوسرے افراد جرم سے باز رہیں۔ لیکن ذاتی انتقام، قانونی انصاف کے برعکس، اکثر غیرجانبداری سے محروم ہوتا ہے اور مزید تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔
انتقام کی خواہش پر قابو پانے کی حکمت عملیاں
اگر آپ خود کو انتقام کی سوچوں میں الجھا ہوا محسوس کرتے ہیں تو ان حکمت عملیوں پر عمل کریں:
ہمدردی اپنائیں – یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ جس نے آپ کو نقصان پہنچایا اس کے پیچھے کیا وجوہات تھیں۔
پیشہ ورانہ مدد حاصل کریں – معالج یا ماہر نفسیات سے مشورہ لینا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ذاتی ترقی پر توجہ دیں – اپنی توانائی کو مثبت مقاصد کی طرف مرکوز کریں۔
قانونی راستہ اپنائیں – اگر کوئی ناانصافی ہوئی ہے تو قانونی طریقوں سے انصاف حاصل کریں۔
معافی کا نظریہ اپنائیں – معافی کا مطلب یہ نہیں کہ بھول جائیں، بلکہ منفی جذبات سے خود کو آزاد کرنا ہے۔